روز دیکھتے
کئی
چہرے
نقاب
اترے,
اصل
جھانکے
کھوۓ
ہوتے!
روز
بڑھتے
لوگ
کتنے
نفرتوں
میں
مجھے
گراۓ
خوش
ہوتے!
روز
چڑھتے
منزلوں
کے
ہوۓ
ہراۓ
پھر
سے
اٹھے
ہوتے!
روز
مرتے
ہمارہے
جذبے
کئی
ہنستے
دشمنوں
کے
ستاۓ
ہوتے!
روز
گرتے
گراۓ
ہوۓ,
پھر
سے اٹھتے
ستاۓ
جاتے
رولاۓ
ہوتے!