منظر صبح دکھانے اسے لایا نہ گیا
آتی جاتی رہیں شامیں کوئی آیا نہ گیا
رات بستر پہ کھلے چاند میں سوتا تھا کوئی
میں نے چاہا کہ جگاؤں تو جگایا نہ گیا
ایک مدت اسے دیکھا اسے چاہا لیکن
وہ کبھی پاس سے گزرا تو بلایا نہ گیا
گھیرے رہتی تھی اسے ایک جہاں کی نظریں
پھر جو دیکھا تو وہ اس آن میں پایا نہ گیا
سر اٹھاتے ہی کڑی دھوپ کی یلغار ہوئی
دو قدم بھی کسی دیوار کا سایا نہ گیا
تھا مقرر کہ ملاقات رہے گی اس سے
وہ تو پہنچا تھا مگر مجھ سے ہی آیا نہ گیا
احمد مشتاق