بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے ان تین
ترجمانوں کو پارٹی سے نکال دیا جنہوں نے بدترین توہینِ رسالت کی تھی اور دنیا بھر
کے مسلمانوں کو مشتعل کر دیا تھا لیکن یہ کارروائی تب کی جب عرب ملکوں نے پنجے
دکھائے اور بھارت کو اندیشہ ہوا کہ خلیجی ممالک میں ان کو تجارتی گھاٹا ہو جائے
گا۔ ابھی ان ملکوں نے دانت نہیں دکھائے، دکھا دیے تو عرب ملکوں میں روزگارکیلئے
مقیم دسیوں لاکھ بھارتی باشندوں کی بے دخلی ہو سکتی ہے جس سے بھارت کے زرمبادلہ کے
ذخائر میں تباہ کن کمی واقع ہو جائے گی اور پارٹی سے یہ اخراج کوئی معنی نہیں
رکھتا ہے۔
یہ تو مجبوری کا سودا اور دکھاوے کی کارروائی
ہے۔ اصل میں ان کی گرفتاری ہونی چاہیے اور وہ تو ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ ان تینوں
ترجمانوں سے زیادہ زہر ناک تو یوپی کا وزیر اعلیٰ آدتیہ جوگی ہے جو جب سے آیا ہے
یوپی بھر میں مسلمانوں کی جان آفت میں آئی ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑا شیطان تو خود
نریندر مودی ہے جو بی جے پی کا سربراہ اور ملک کا وزیراعظم ہے جس پر گجرات میں دو
ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو زندہ جلانے کا الزام ہے۔
ماضی میں گاہے گاہے لیکن ایک تسلسل کے ساتھ
مسلم کش فسادات ہوتے تھے۔ کسی میں دس بیس، کسی میں سو پچاس تو کسی میں کئی سو
مسلمان مار دیے جاتے تھے۔ ایک ایک اور دو دو ہزار بھی مارے گئے۔ ان فسادات سے
بھارت بھرکے مسلمان خوف اور صدمے کا شکار ہوتے تھے لیکن ان کا حوصلہ نہیں ٹوٹتا
تھا۔ نریندر مودی کی قیادت نے نیا او زیادہ خطرناک ہتھکنڈا اختیارکیا ہے قتل عام
کی ہر واردات پر بیرونی دباؤ آتا تھا۔
بدنامی بھی ہوتی تھی اور مسلمانوں کا حوصلہ بھی
نہیں ٹوٹتا تھا۔ اب یہ نیا ڈاکٹرائن مودی نے ایجاد کیا ہے، وہ ہر لحاظ سے خطرناک
ہے۔ اس میں اکا دکا مسلمانوں کا قتل کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اکا دکا قتل عالمی
لائم لائٹ میں نہیں آتا۔ لیکن اکا دکا قتل کا یہ طریقہ کار ہے کیا؟
کسی راہ چلتے مسلمان کو تاک لیا جاتا ہے بھارت
کے کسی بھی شہر اور قصبے میں، اسے سڑک پر لٹاکرٹھڈوں لاتوں پتھروں ڈنڈوں سے پیٹ
پیٹ کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے کارکن مرنے کے بعد بھی اس کے سینے اور
پیٹ پر بار بارکودنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ پھر یہ ساری ویڈیو اس کیپشن کے ساتھ
پورے بھارت میں وائرل کر دی جاتی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے کے الزام کے تحت مار
دیا گیا۔
تین مسلمان نوجوان باغ میں بھاجی روٹی کھا رہے
تھے کہ سنگ پر یوارکے کچھ غنڈے آ گئے اور چلائے کہ تم گائے کا گوشت کھا رہے ہو۔
مسلمانوں نے انہیں اپنا کھانا دکھایا کہ اس میں گوشت کا ٹکڑا تک نہیں ہے۔ یہ آلو
بینگن کی ترکاری ہے لیکن انہیں مارنا شروع کر دیا گیا۔ ایک چل بسا اور دو بری طرح
زخمی ہوئے۔
یہ واقعات ہر مہینے ایک یا دوکے حساب سے ہوتے
ہیں یعنی ہر مہینے محض ایک دو یا حد تین چار قتل، عالمی میڈیا کے سامنے سے یہ کوئی
ایسی بڑی تعداد نہیں ہے کہ اس پر کوئی خاص نوٹس لیا جائے لیکن بھارتی مسلمانوں
کیلئے یہ امر تباہ کن ہے۔ بھارت کا ہر مسلمان خواہ یوپی بہار کا ہو یا اڑیسہ اور
ایم پی کا، گھر سے خوف کے عالم میں نکلتا ہے کہ خدا جانے رستے میں کیا ہو جائے۔ اس
کی واپسی تک گھر والے الگ خو ف اور پریشانی کی صلیب پر ٹنگے رہتے ہیں۔ جہاں کچھ
نہیں ہو رہا وہاں بھی دھڑکا لگا رہتا ہے۔
ایک نیا اضافہ اس ڈاکٹرائن، میں یہ کیا گیا ہے
کہ کسی مسجد یا مدرسے کو لاک کیا جاتا ہے۔ کارسیوک مسلمان کا بھیس بنا کر نماز میں
پہنچ جاتا ہے اور موقع پا کر کوئی مورتی یا پتھر کا تراشا ہوا لمبا اور معمولی
ٹکڑا کسی الماری کے خانے یا طاق میں چھپا دیتا ہے۔ باہر کوئی گردے لباس والا اعلان
کرتا ہے کہ مجھے خواب میں شیوجی نے درشن دیا اور بتایا ہے کہ اس مسجد میں میرا لنگ
یا کوئی نشانی پڑی ہے۔ آن کی آن میں ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ مسجد کی تلاشی لی جاتی
ہے اور شیولنگ برآمد کر لیا جاتا ہے۔ مسجد بند کر دی جاتی ہے۔ معاملہ عدالت جاتا
ہے اور عدالت مسجد کو ہندوؤں کے حوالے تو نہیں کرتی لیکن تا فیصلہ حکم جاری کرتی
ہے کہ مسجد کو تالا لگا دیا جائے۔
کہیں اچانک کوئی اور نمودار ہوتا ہے اور دعویٰ
کرتا ہے کہ یہ مسجد اتنی صدی پہلے مندرگرا کر تعمیرکی گئی تھی۔ یہ مسجد بھی گئی۔
کہیں تجاوزات ہٹانے کے نام پر مسجد، یتیم خانہ اور مدرسے گرا دیے جاتے ہیں۔ احتجاج
کرنے والوں پر سنگھ پر یو او کے بلوائی ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک طرف سے بلوائی، دوسری
طرف سے پولیس ان کو مارتی ہے اور پکڑ کر لے جاتی ہے، لہو لہان حالت میں اور عدالت
ہے کہ شنوائی ہی نہیں ہوتی۔ یوپی میں قیامت برپا ہو یا گجرات جل رہا ہو، بھارت کے
کچھ علاقے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔
ایک خصوصی بیلٹ کا راجستھان اور دوسرا جنوب کے
چار صوبے یعنی کیرل (سابقہ مالا بار)، کرناٹک (سابقہ میسور)، تامل ناڈو (سابقہ
مدارس) اور آندھرا پردیش جواب بٹ کر دو صوبے ہو گیا ہے یعنی آندھرا اور تلنگانہ۔
بی جے پی نے زہرباد کے جو جھکڑ چلائے ہیں۔ اب یہ علاقے بھی ان کی لپیٹ میں آ ئے
ہیں۔ مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ راہ چلتے اکا دکا مسلمانوں کی لنچنگ ہو رہی ہے۔
کئی مساجد میں نماز پڑھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور کئی مسجدوں کو تالے لگ گئے
ہیں۔ مسلمان ریسٹورنٹس پر گائے کا گوشت مینو میں رکھنے کا الزام لگا کر حملے ہو
رہے ہیں۔ ملک بھر میں مسلمانوں کیلئے بے روز گاری کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے۔
ضروری نہیں کہ مسلمانوں کو نوکری سے برطرف کیا
جائے، دفتر یا کارخانے کے اندر، ساتھی ورکرز کی طرف سے ہراسانی کا تسلسل انہیں خود
سے نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بی جے پی کے ٹی وی چینل افواہ کو خبر بنا کر
اشتعال پھیلاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کسی مسجد پر پتھراؤ شروع ہو جاتا ہے۔
بھارتی مسلمان کسی مسیحا نہیں، قیامت آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔