ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا کتنا میری ذات سے وہ شخص وابستہ رہا |Yaseen Afzal

0

 

ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا  کتنا میری ذات سے وہ شخص وابستہ رہا   latest poetry
Yaseen Afzal Poetry

ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا

کتنا میری ذات سے وہ شخص وابستہ رہا

 

صبح کاذب روشنی کے جال میں آنے لگی

سیم گوں سورج اجالے پر کمر بستہ رہا

 

دیکھنے میں کچھ ہوں میں محسوس کرنے میں ہوں کچھ

چشم بینا پر مرا یہ راز سربستہ رہا

 

اپنے زنداں سے نکلنا اپنی طاقت میں نہیں

ہر بشر اپنے لیے زنجیر پابستہ رہا

 

پرسش غم میں نہ مجھ سے ہی محض عجلت ہوئی

اس کی آنکھوں کا چھلک پڑنا بھی برجستہ رہا

 

اپنے اندر کی خلش کا کر لیا میں نے علاج

میرے دل میں دوسروں کا درد پیوستہ رہا

 

یا مسائل سے تقابل زندگی سے یا فرار

بچ نکلنے کا وہاں سے ایک ہی رستہ رہا

یٰسین افضال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
Post a Comment (0)

buttons=(Accept !) days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !
To Top