حکایات لب و رخسار سے آگے نہیں جاتی
تمنا کیا جو تیرے پیار سے آگے نہیں جاتی
کئی طوفان اس منجدھار سے آگے بھی ہیں لیکن
نگاہ نا خدا منجدھار سے آگے نہیں جاتی
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں تیرے سامنے جا کر
تمنا کیوں لب اظہار سے آگے نہیں جاتی
شکست شیشۂ دل کی صدا اٹھتی تو ہے لیکن
سبو و جام کی جھنکار سے آگے نہیں جاتی
نگاہ و دل کی وسعت میں ہمیں ترمیم کرنی ہے
نظر کیا ہے جو حسن یار سے آگے نہیں جاتی
عجب اہل محبت ہیں کبھی تیری محبت ہیں
بڑھی گر بات بھی تو دار سے آگے نہیں جاتی
یہ کیسے لوگ ہیں شبنمؔ ابھی تک جو یہ کہتے ہیں
غزل کیوں نرمیٔ گفتار سے آگے نہیں جاتی
شبنم نقوی