شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا
کہئے تو کس کے پھنسانے کی یہ تدبیریں ہیں
آج کیوں چیں بہ جبیں سے خم گیسو بدلا
اک ترا ربط کہ دو دن کبھی یکساں نہ رہا
اک مرا حال کہ ہرگز نہ سر مو بدلا
ان حسینوں ہی کو زیبا ہے تلون اے دل
ہاں خبردار جو بھولے سے کبھی تو بدلا
دل مضطر کی تڑپ سے جو میں تڑپا بیخودؔ
چارہ گر خوش ہیں کہ بیمار نے پہلو بدلا
بیخود بدایونی