کاغذ پہ ایک نام اتارا تھا، اور بس
پھر ہم تھے اور قبیلہ ہمارا تھا،اور بس
ماتھے پہ اس کا لمس تھاھاتھوں میں اک گلاب
دشوار زندگی کا اشارہ تھا اور بس
منظر تھا ڈوبتے ہوۓ سورج کا،اور میں
دریا میں ایک عکس تمہارا تھا اور بس
ہم تھے کہ پاگلوں کی طرح بھاگتے رہے
اس کی طرح کسی نے پکارا تھا اور بس
دل میں تمہاری یاد ،اماوس کی رات تھی
ہمراہ میرے ایک ستارہ تھا اور بس
پھر اس کے بعد راستہ خوشبو میں کٹ گیا
کچھ وقت اس کے ساتھ گزارا تھا اور بس
وہ مضطرب کہ عشق میں نقصان ہی نہ ہو
ہم مطمئن کہ جاں کا خسارہ تھا اور بس
ہر خواب محو خواب رہا عمر بھر حرا
نیندوں پہ رتجگوں کا اجارہ تھا اور بس
حرا رانا