یارب غم ہجراں میں اتنا
تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ
دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور
اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا
دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں
رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں
ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین
تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ
تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں
سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ
ہم سے سنا ہوتا
چراغ حسن حسرت