مولانا الطاف حسین حالیؔ نے جب آج سے 243 سال قبل 1879ء میں مسلمانوں کے زوال کا نوحہ
"مسدسِ حالی" کی صورت میں لکھا، تو آغاز ہی میں اس قوم کی حالتِ زار بتاتے ہوئے اس کا نقشہ یوں کھینچا۔
یہی حال دُنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
ٹھیک یہی حالت آج پاکستان کے اربابِ اختیار اور اہلِ سیاست کی ہے، کہ عین جس لمحے اس قوم کو متحد اور بیدار ہونا چاہئے تھا، یہ کشمکش اقتدار اور مستقبل کی حکومت کی منصوبہ بندی میں اسی طرح اُلجھے ہوئے ہیں، جیسے بغداد پر ہلاکو کے حملے کے وقت عوام اور خواص گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور خلیفہ سے دُشمنی نبھانے کے لئے ابن علقمی نے ہلاکو کو بغداد پر حملے کی دعوت دی تھی۔ لیکن جب وہ سب کو روندتا ہوا بغداد میں داخل ہوا تو پھر ہلاکو کی تلوار سے کسی کی بھی گردن سلامت نہیں رہی تھی۔ لیکن یہاں تو معاملہ صرف پاکستان کا اکیلے نہیں ہے بلکہ اس وقت پوری دُنیا آنے والی جنگ سے تھرتھر کانپ رہی ہے۔
دُنیا کے تمام امیر ممالک سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں، کہ یوکرین اور روس کی جنگ جو یقیناً بہت طویل ہوتی نظر آتی ہے، اس کے دوران پوری دُنیا پر جو قحط، بے روزگاری، افلاس اور سہولیات کے فقدان کا دور آنے والا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے۔ روس اور یوکرین کے ممالک، جہاں اصل میدانِ جنگ گرم ہے، یہ دونوں ممالک دنیا کی "روٹی کی ٹوکری" (Bread Basket) ہیں۔
دُنیا کا تیس فیصد چاول، گندم اور دالیں ان ہی دونوں ملکوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ سورج مُکھی جس سے خوردنی تیل بنتا ہے اور پکوان تلے جاتے ہیں، پوری دُنیا کا آدھا اس علاقے میں اُگتا ہے۔ دُنیا میں جب سے گیس دریافت ہوئی، روس اس وقت سے دُنیا کا سب سے زیادہ گیس برآمد کرنے والا ملک ہے اور تیل برآمد کرنے والا بھی دوسرا بڑا ملک ہے۔
روس اور بیلا روس میں کھاد کے اتنے کارخانے ہیں کہ اس وقت دُنیا میں استعمال ہونے والی ہر پانچویں بوری وہاں سے آتی ہے۔ جس خطے میں جنگ ہوتی ہے وہاں دو طرح کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ پیداوار بہت کم ہو کر رہ جاتی ہے اور لوگ صرف اپنی ہی ضروریات کے مطابق بہ مشکل غلہ اُگاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر ضرورت سے زیادہ پیدا ہو جائے تو پھر وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ کئی گنا مہنگا ہو کر بِکتا ہے۔ ظاہر بات ہے اس جنگ میں جب دُنیا کی "خوراک کی ٹوکری" میں اناج ہی کم آئے گا تو پھر اسی کو ملے گا جو اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرے گا۔ جبکہ ان امیروں کے مقابلے میں بھوک اور قحط ایسے لوگوں کا مقدر میں بنے گا جو مفلس و نادار ہیں یا پھر چھیننے کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔
جنگِ عظیم دوّم میں 1943ء میں آنے والا بنگال کا قحط، تاریخ میں جنگی جرائم کی علامت ہے، اس میں 43 لاکھ بنگالی ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ جنگِ عظیم کے دوران ہندوستان، انگریز کے زیرِ تسلّط تھا اور برطانوی جمہوریت کا چیمپئن چرچل اس کا وزیر اعظم تھا۔ اس نے خوراک کے گوداموں کو تالے لگا دیئے تھے کہ اب گندم صرف انگلستان کے لوگ ہی استعمال کریں گے۔
ایک آفیسر نے پوری صورتِ حال لکھ کر بھیجی کہ لوگ قحط سے مر رہے ہیں تو اس نے فائل پر لکھا "Has Gandhi died yet" "کیا اب تک گاندھی مر گیا ہے" اور خوراک کے گوداموں کے تالے نہیں کھولے تھے۔ کچھ ایسا ہی حال دُنیا کے بے شمار ملکوں کا چند مہینوں میں ہونے والا ہے۔ جنگ کے آغاز کے پہلے مہینے میں ہی دُنیا میں آباد ایک ارب ستر کروڑ افراد فوراً متاثر ہو گئے تھے۔
یہ افراد اب تک جنگ سے تین طرح کے خطرات کا شکار ہو چکے ہیں (1) خوراک کی کمی اور قیمتوں میں ہوشربا اضافہ (2) تیل اور گیس کی کمی اور قیمتوں میں اضافہ اور تیسرا یہ ہے کہ اپنے معاشی حالات کی ابتری جو پہلے ہی کرونا کی وجہ سے دگرگوں ہو چکے تھے۔ دُنیا کے چھیالیس بڑے بڑے غریب ممالک میں سے، 38 ممالک اس مصیبت کی زد میں آ رہے ہیں جبکہ 58 چھوٹے چھوٹے جزیرہ نما ممالک میں سے 40 کو اس خرابی کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں سے پچیس ممالک افریقہ سے، 25 ایشیا سے، اور 19 لاطینی امریکہ، پیسفک اور جزائر غرب الہند (Caribbean) سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور دل تھام کر سن لو کہ ان ممالک میں مملکتِ خداداد پاکستان بھی نہ صرف شامل ہے بلکہ ان دس ممالک میں سے ایک ہے جہاں خوراک کا شدید بحران آ سکتا ہے۔ اس لئے کہ گذشتہ چالیس سال سے اس ملک پر ایسے حکمران مسلّط رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کو تاجر کا ایک "کھلواڑ خانہ" بنا دیا تھا۔ دُنیا بھر سے گندم، دالیں، چاول خریدو، دکانوں میں بیچو اور منافع کما کر سیاسی نعرے لگاتے پھرو۔
زمیندار سے تمام مراعات چھین لی گئیں جس کی وجہ سے اوّل تو اس نے کھیت کھلیان ہی بیچ دیئے یا پھر وہاں گندم، دالیں وغیرہ لگانا اتنا مہنگا پڑنے لگا تھا کہ اس نے قیمتی اور فوری منافع والی چیزیں جیسے گنا، کپاس اور سبزیاں لگائیں، پیسے جیب میں ڈالے اور پھر خود بھی یوکرین سے درآمدشدہ گندم خریدی۔ پاکستان کا یہ خطہ جہاں ایک زمانے تک گائے بیلوں کے دیسی گھی سے باورچی خانے کی گاڑی چلتی تھی اب یہ ملک ہر سال 24 ارب ڈالر کا پام آئل باہر سے منگواتا ہے۔
کیا اس ملک میں سورج مُکھی، کنولا یا پام کے درخت لگانا مشکل کام تھا۔ لیکن حکمران کو تو زمیندار نہیں بلکہ تاجر پسند تھے جو ان کے خرچے اُٹھاتے اور انہیں کمیشن دیتے تھے۔ یہی خطہ جو آزادی سے پہلے پورے ہندوستان کو گندم فراہم کرتا تھا لیکن اس سال ایک اندازے کے مطابق آٹھ ارب ڈالر کی گندم باہر سے منگوائے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ گندم کہاں سے منگوائے گا۔ پہلے یوکرین سے آتی تھی اب تو یوکرین والے زیادہ سے زیادہ اپنے اتحادی یورپی یونین کو ہی گندم سپلائی کر سکیں تو بھی بڑی بات ہو گی۔
افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا کے ممالک میں جب قحط کی صورتِ حال پیدا ہو گی تو ان حالات میں لوگ ان ملکوں کی جانب ہجرت کو دوڑ پڑیں گے جہاں خوراک موجود ہو گی۔ جو نہیں بھاگ سکیں گے وہ اپنے ہی ممالک میں خوراک کیگوداموں پر حملہ آور ہوں گے۔ ویسے بھی ابھی تک 65 لاکھ یوکرینی اپنے کھیت کھلیان چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں محفوظ شہروں میں جا چکے ہیں جبکہ 35 لاکھ ملک ہی چھوڑ چکے ہیں۔
جنگ جیسے جیسے باقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی، دُنیا میں ہتھیاروں کی ایسی دوڑ شروع ہو جائے گی جس سے بچنا ناممکن ہو گا۔ اپنی حفاظت کے لئے ریاستوں کو پیٹ کاٹ کر ہتھیار حاصل کرنا پڑیں گے۔ جنگ کے شعلوں کا عالم یہ ہے کہ سویڈن جیساملک جو کبھی نیٹو کا اتحادی نہیں بنا تھا وہ بھی مجبوراً اس میں شامل ہو گیا ہے۔ روس کی گیس کے مقابلے میں کوئلہ خریدا جا رہا ہے یا پھر خلیج سے ایل این جی۔ ابھی سے تیل کے لئے یورپی ملکوں میں قطاریں لگ رہی ہیں۔
غریب ممالک تو اس کا مزہ چند ہفتوں میں چکھنا شروع ہو جائیں گے۔ صرف ایک چھوٹے سے ملک سری لنکا میں قحط سے متاثر ہونے والوں کی اندازاً تعداد پچاس لاکھ ہو سکتی ہے۔ یوکرین کے ساتھ جس دوسرے خطے کو گرم کرنے کی تیاری ہے وہ پاکستان اور بھارت ہے۔ نیٹو کی طرز پر بننے والے چار ملکی اتحاد QUAD، جس میں بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ شامل ہیں جنگ کے لئے متحرک ہو چکا ہے۔
اس وقت یوکرین کے بعد بھارت دوسرا ملک ہے جو گندم میں خود کفیل ہے لیکن اپنی ضروریات کے لئے 84 فیصد تیل باہر سے منگواتا ہے یہاں جنگ چھڑی تو تین ارب افراد ملوث ہوں گے۔ اس جنگ میں جو چین کی معاشی پیش قدمی کو روکنے کے لئے چھیڑی جائے گی، اس میں ہماری کیا دُرگت بنے گی کسی کو اندازہ ہے؟ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔