اسد اللہ غالب کے بارے میں اگر یہ کہا جائے اردو زبان نے آج تک اس سے بڑا شاعر پیدا نہیں کیا تو یہ غلط نہیں ہو گا لیکن اردو کا یہ عظیم شاعر دلی کے کوچہ بلی ماراں میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا‘ شاعر بے انتہا بڑا تھا لیکن آمدنی صفر تھی‘ تمام تر گزر بسر امداد اور قرض پر تھی۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھوڑی بہت مدد
کر دیتا تھا‘ وہ اور اس کی سرکار نہ رہی تو یہ ذمے داری مختلف نوابوں‘ مہاجنوں اور
دوستوں نے اٹھا لی‘ وہ سب مل کر دو چار سو روپے بھجوا دیتے تھے اور اس سے غالب
ولایتی شراب اور کباب کا بندوبست کرلیا کرتا تھا‘ مزاج کا بادشاہ تھا لہٰذا
اخراجات شاہی تھے‘ لباس شان دار پہنتا تھا‘ دستر خوان وسیع تھا اور شراب اور جوئے
کا رسیا بھی تھا چناں چہ پوری زندگی کسمپرسی میں گزری‘ غالب کی زندگی کا کوئی دن
ایسا نہیں گزرا جب اس نے کسی سے قرض نہ لیا ہو یا کسی نہ کسی مہاجن نے اس کے
دروازے پر دستک نہ دی ہو یہاں تک کہ 1857 کے بعد جب دلی فتح ہو گئی۔
مغل سلطنت ختم ہو گئی اور انگریز سرکار نے لال
قلعے پر جھنڈا لہرا دیا تو غالب انگریزوں کا وظیفہ خوار بھی ہو گیا‘ غالب اس حالت
میں15 فروری 1869 کو وفات پا گیا اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار کے راستے
میں مدفون ہوگیا لیکن اس کے ذمے قرض آج بھی واجب الادا ہیں‘ آج بھی جب اسد اللہ
غالب پر کوئی مضمون یا مقالہ لکھا جاتا ہے تو اس کے قرضوں کی تفصیل ضرور بیان کی
جاتی ہے۔
غالب کی زندگی معاشی اہمیت کی بہت بڑی مثال ہے
اور یہ مثال ثابت کرتی ہے پیسہ شاعری اور ادب سے بھی بڑی ضرورت ہوتا ہے اور یہ اگر
غالب کے پاس بھی نہ ہو تو وہ بھی بے چارگی کی مثال بن جاتا ہے اور پاکستان اس وقت
مجموعی طور پر غالب کی صورت حال سے گزر رہا ہے‘ ہم من حیث القوم 75 برس سے اسد
اللہ غالب جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ قرض لے کر مے پیتے ہیں اور فاقہ مستی کے تخت
نشین ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ہم بے شک غالب کی طرح باصلاحیت ہیں‘ ہم دنیا کی
پہلی مسلم اٹامک پاور ہیں‘ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کاپانچواں بڑاملک بھی ہیں اور
آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو وہاں پاکستانی بھی مل جائیں گے اور
وہ آپ کو ترقی کرتے بھی دکھائی دیں گے‘ قدرت نے ہمیں سب کچھ دے رکھا ہے‘ آپ دنیا
کی بڑی معدنیات کی فہرست بنا لیں‘آپ کو وہ اس ملک میں ملیں گی‘ ہمارے ملک میں ڈیڑھ
گھنٹے کی فلائٹ کے فاصلے پر ایک ہی وقت میں پچاس ڈگری سینٹی گریڈ اور منفی پچاس
ڈگری سینٹی گریڈ دو درجہ حرارت موجود ہوتے ہیں‘ سولائزیشن بھی نو ہزار سال پرانی
ہے۔
یوگا تک نے موہن جو داڑو میں جنم لیا تھا‘ دنیا
کو نیلا رنگ ہم نے دیا تھا‘ دنیا کی نمک کی دوسری بڑی کان پاکستان میں ہے‘ دنیا
میں صرف دس ملک ہیں جن کے پاس تمام جغرافیائی اکائیاں موجود ہیں اور پاکستان ان
میں سے ایک ہے‘ یہ ملک ہر قسم کے حادثے میں بھی سروائیو کر جاتا ہے اور ملک کا ہر
شخص اس سے محبت بھی کرتا ہے‘ یہ اسے پھلتا پھولتا بھی دیکھنا چاہتا ہے لیکن یہ اس
کے باوجود انتہائی قابل ترس صورت حال کا شکار ہے‘ کیوں؟ ہم نے کبھی اس حقیقت کا
تجزیہ کیا؟ نہیں کیا‘ میں اگر تین لفظوں میں پاکستان کی معیشت کو بیان کروں تو
قرض‘ بے کاری اور قیادت کا فقدان سامنے آئے گا اور ان تینوں چیزوں نے مل کر اس ملک
کو اسد اللہ غالب بنا دیا اور ہم تاریخ کے خوف ناک ترین بحران کا شکار ہو گئے۔
آپ آج یہ بات پلے باندھ لیں ہم 2023 میں 2022
کو یاد کریں گے اور ایک لمبی آہ بھر کر یہ کہیں گے واہ 2022 کتنا شان دار سال تھا‘
ملک میں مہنگائی تھی لیکن کم از کم چیزیں موجود تھیں جب کہ آج ہم سارا سارا دن
لائن میں کھڑے رہتے ہیں اور شام کو خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں‘آپ یہ بات ذہن میں
رکھ لیں ہمارا آنے والا وقت آج کے وقت سے زیادہ مشکل ہو گا لہٰذا آپ آج ہی سے اس
کی تیاری کر لیں کیوں کہ معیشت چلانا مفتاح اسماعیل کے بس کی بات نہیں‘یہ اسد عمر
اور حفیظ شیخ سے زیادہ اناڑی ثابت ہوئے ہیں ‘ یہ معیشت کو بھی نہیں سمجھتے اور ان
کا رویہ بھی غیرسنجیدہ ہوتاہے۔
یہ چلتے چلتے جگت مار جاتے ہیں اور وہ جگت معیشت
کا مزید بیڑہ غرق کر دیتی ہے‘شوکت ترین ان کے مقابلے میں سو درجے بہتر تھے‘ وہ
واقعی ملک چلا رہے تھے ‘ مفتاح اسماعیل کا خیال تھا یہ آئی ایم ایف کو راضی کر لیں
گے لیکن آئی ایم ایف نہیں مان رہا‘ یہ سمجھتے تھے یہ ڈالر اور اسٹاک ایکسچینج کو
کنٹرول کر لیں گے لیکن یہ اندازہ بھی لولی پاپ ثابت ہوا ‘ ڈالر آؤٹ آف کنٹرول ہو
گیا اور اسٹاک ایکسچینج نے پستی میں چھلانگ لگا دی‘ ان کا خیال تھا سعودی عرب اور
چین ان کی مدد کریں گے لیکن چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ ابھی تک ہمارا رابطہ نہیں
ہو سکا۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف 28 اپریل کو سعودی
عرب کے دورے پر گئے‘ سعودی ولی عہد نے انھیں بھی وہ گھڑی‘ وہ ہار اور وہ انگوٹھی
دے کر واپس بھجوایا جو انھوں نے عمران خان کو دی تھی اور جسے عمران خان نے بعدازاں
دبئی میں فروخت کر دیا تھالہٰذایہ دورہ بھی ناکام رہا‘ حکومت کو قطر سے بھی توقع
تھی‘ میاں نواز شریف کی کوششوں سے قطر نے تین بلین ڈالر کی ایل این جی ادھار دینے
اور دو بلین ڈالر قرض دینے کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ بھی ایفا نہیں ہوااور یوں ملک
معاشی گرداب میں پھنستا چلا گیا چناں چہ دنیا میں اگر فوری طور پر پٹرول سستا نہیں
ہوتا‘ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کام یاب نہیں ہوتے اور اگر چین‘ قطر
اور سعودی عرب ہماری مدد نہیں کرتے تو حکومت دو مہینوں میں نیا بجٹ پیش کرنے پر
بھی مجبور ہو جائے گی اور پٹرول تین سو روپے لٹر‘ ڈالر اڑھائی سو روپے اور اسٹاک ایکسچینج
20 ہزار پوائنٹس پر آ جائے گی اور وزیرخزانہ بھی تبدیل ہو جائے گا اور مہنگائی کا
سونامی بھی آ جائے گا اور حکومت اس سے نکلنے کے لیے بزنس مین‘ صنعت کاروں اور
سرمایہ کاروں کو مزید ٹائیٹ بھی کر دے گی‘ یہ پہلے ہی تنگ ہیں‘ یہ کام چھوڑ دیں گے
اور یوں مہنگائی کے بعد بے روزگاری کا اژدھا بھی گلیوں میں آ جائے گا‘ میں آپ کو
ڈرا نہیں رہا‘ میں آپ کوصرف آنے والے دنوں کے بارے میں مطلع کر رہا ہوں۔
ہم اس صورت حال سے نکل کیسے سکتے ہیں؟ یہ سوال
اب بہت اہم ہوتا جا رہا ہے‘ آپ سردست حکومت کو سائیڈ پر رکھیں اور اپنی اپنی زندگیوں
کو انفرادی سطح پر ری شیپ کرنا شروع کر دیں‘ پہلی بات یہ یاد رکھیں معیشت بچت اور
گزارے کا نام نہیں ہوتا‘ یہ آمدنی یعنی ارننگ کا نام ہے لہٰذا آپ فوری طو رپر بچت
کے موڈ سے نکل کر کمائی کے فیز میں آ جائیں‘ آپ کے خاندان کے کم از کم آدھے افراد
کو کمانا چاہیے‘ آپ کے بچے اگر تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا چھوٹے ہیں تو بھی انھیں
کمانا چاہیے‘ یہ فالتو وقت میں کوئی نہ کوئی اسکل سیکھیں اور چند ہزار روپے ہی سہی
لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کمائیں‘ آپ خود بھی وقت ضایع کرنے کی بجائے اپنی آمدنی میں
اضافے کا بندوبست کریں۔
دوسرا آپ بلاوجہ سرمایہ کاری بند کر دیں‘ پلاٹس
اور پرائز بانڈز میں پیسے پھنسانے کی بجائے آپ یہ رقم اپنے خاندان کی صحت اور
ٹریننگ پر لگائیں تاکہ آپ لوگ مزید کما سکیں‘ تین آپ خوراک کا مستقل بندوبست کر
لیں‘ آپ کے پاس اگر زمین یا کوئی پلاٹ موجود ہے یا پھر اللہ نے آپ کو لان دے رکھا
ہے تو آپ اس میں سبزیاں‘ فروٹ اور اناج کاشت کر لیں‘ اس سے آپ کا کچن خود مختار ہو
جائے گا‘ آپ مرغیاں‘ بکریاں اور گائے بھی ضرور پالیں‘ آپ اگر یہ کام اکیلے نہیں کر
سکتے تو تین چار ہمسائے مل کر کر لیں‘ اس سے آپ کا معاشی بوجھ کم ہو جائے گا‘ چار
گاڑیاں بلاوجہ چلانا بند کر دیں‘ اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہوگا‘ آپ ہزار روپے
لیٹر پٹرول بھی خرید سکتے ہوں گے لیکن آنے والے دنوں میں پٹرول کی قیمت اتنی اہم
نہیں ہو گی جتنا اہم پٹرول ہو گا‘ ملک میں اگر پٹرول ہو گا تو آپ خریدیں گے ورنہ
آپ کو بھی لائن میں لگنا پڑے گا چناں چہ آپ پٹرول کی بچت کو آج سے عادت بنا لیں۔
آپ نفسیاتی پریشر سے بچ جائیں گے‘ بجلی اور
پانی کی بچت بھی شروع کر دیں‘ ہم بیس سال پہلے تک اے سی کے بغیر ٹھیک ٹھاک زندگی
گزار رہے تھے‘ آج ایسا کیوں ممکن نہیں؟ بجلی کی قیمت عنقریب چالیس روپے یونٹ تک
پہنچ جائے گی‘ آپ اس وقت اے سی بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ آج سے یہ کام
کیوں شروع نہیں کرتے تاکہ آپ کو کل زیادہ تکلیف نہ ہو اور پانچ آپ توانائی اور
خوراک کے متبادل نظام کی طرف جائیں۔
سولر پینل لگائیں‘ خشک ایندھن کا بندوبست کر
لیں‘ گھروں کی انسولیشن کرا لیں‘ دوپہر کو گھر میں آرام کریں تاکہ گرمی اور سردی
کم لگے اور آپ دن میں تین بار کھانا پکانے کی بجائے صرف ایک بار پکائیں اور یہ جب
تک مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا آپ چولہا نہ جلائیں‘ ملک اور آپ دونوں معاشی
بحران سے نکل جائیں گے۔
ہم سب بدقسمتی سے اسداللہ غالب جیسی زندگی گزار
رہے ہیں‘ قرض کی شراب پی کر اللہ سے خوش حالی کی دعا کرتے ہیں‘ اصراف سے بھرپور
زندگی گزارتے ہیں اور امارت کے خواب دیکھتے ہیں لہٰذا ہمارے مسائل بڑھتے چلے جا
رہے ہیں‘ ہم ان حالات میں کیسے اچھی اور خوش حال زندگی گزارسکتے ہیں؟ ذرا سوچیے
اور یہ بھی یاد رکھیے 2023 آج کے 2022 سے زیادہ مشکل ہو گا اور ہم 2022 کو یاد کر
کر کے روئیں گے۔
Source: Express News