رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو کبھی مُجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی، پھر بھی کبھی تو
رسم و رہِ دنیا ہی نِبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جُدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اِک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم
اے راحتِ جاں! مجھ کو رُلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں اُمیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بُجھانے کے لیے آ
احمد فراز